اس قدر رسوائیوں کی گرم بازاری نہ تھی
اس قدر رسوائیوں کی گرم بازاری نہ تھی
تھی انا پسپا مگر ایسی بھی پسپائی نہ تھی
تھی مگر محرومیوں کی یہ فراوانی نہ تھی
آرزو کی کچی کلیوں کی یہ پامالی نہ تھی
میں بھی آغاز سفر میں تم سے کچھ کم خوش نہ تھا
یہ ہے انجام سفر مجھ کو بھی آگاہی نہ تھی
تھی ابھی میری پلک جھپکے پہ دیکھا اور کی
زندگی کل بھی تھی لیکن اتنی ہرجائی نہ تھی
تپ رہا تھا کس قدر پوچھو نہ برفیلا بدن
آگ کے اندر بھی شاید ایسی چنگاری نہ تھی
دل سے آنکھوں تک وہی بے منظری کا سلسلہ
لال پیلے کی ہرے کی گرچہ نایابی نہ تھی
بند کمرہ پر سکوں ماحول ساکت بام و در
اس قدر شاید حسیں پہلے یہ تنہائی نہ تھی