ہم کیا کہ حد نظر تک سراب کی صورت
ہم کیا کہ حد نظر تک سراب کی صورت
نہ خاک خاک نہ اب آب آب کی صورت
کھلا تھا میں بھی کبھی اک گلاب کی صورت
تمام عمر جلا آفتاب کی صورت
کنارہ کاٹ رہا ہوں وجود کا اپنے
پٹک رہا ہوں میں سر موج آب کی صورت
زباں جو سوکھ رہی ہے تو کچھ سبب بھی ہے
سمندروں میں رہا ہوں حباب کی صورت
برون شہر ہی کیا کہ درون شہر بھی ہے
سلگتے لمحوں کا سورج عتاب کی صورت
یہ خالی خالی سی شب لمحۂ سیہ سے بھری
دکھائی تک نہیں دیتی ہے خواب کی صورت
زمین جسم کے اندر جو زلزلے ہیں بپا
انہیں چھپائے گی کب تک جناب کی صورت