Nasir Amrohvi

ناصر امروہوی

ناصر امروہوی کی غزل

    کام اک یہ ترے عاشق نے بڑا خوب کیا

    کام اک یہ ترے عاشق نے بڑا خوب کیا خون سے لکھ کے روانہ تجھے مکتوب کیا یہ بھی کیا کم ہے تری بزم کے ہر سامع نے میرے شعروں کو تری ذات سے منسوب کیا اک مرے قتل پہ واویلا مناسب تو نہیں شر پسندوں نے تو عیسیٰ کو بھی مصلوب کیا جسم پھولوں سا تھا سینے میں رکھا تھا پتھر حوصلہ دیکھیے میں نے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے سینے میں دل کے جیسا جو ایک پتھر دھڑک رہا ہے

    تمہارے سینے میں دل کے جیسا جو ایک پتھر دھڑک رہا ہے وہ ایک پتھر نہ جانے کتنے دلوں کا مرکز بنا ہوا ہے یہ چاند سے بھی حسین تر ہے جو چاند جیسا چمک رہا ہے فراق کی شب میں آسماں پر تمہارا چہرا ٹنگا ہوا ہے دل شکستہ کے حوصلوں نے ہر ایک منزل کو سر کیا ہے تمہارے در تک بھی آن پہنچے پر اس سے ...

    مزید پڑھیے

    بدلی ہوئی دل دار نظر دیکھ رہے ہیں

    بدلی ہوئی دل دار نظر دیکھ رہے ہیں دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہے ہیں کچھ لوگوں کی نظروں میں مری آبلہ پائی کچھ لوگ مرا عزم سفر دیکھ رہے ہیں ہے سامنے ان کے میرے ہونٹوں پہ تبسم لیکن وہ مرا دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں یوں دیکھتے رہنے میں بصارت ہی گنوا دی پر اب بھی تری راہ گزر دیکھ رہے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ہجر میں شب بھر اداس رہنا ہے

    کسی کے ہجر میں شب بھر اداس رہنا ہے سو مجھ کو صبح تلک محو یاس رہنا ہے یہ حال ہے کہ تری دید کو ترستا ہوں میں سوچتا تھا مجھے تیرے پاس رہنا ہے تمہارے لاکھ دلاسے بھی رائیگاں ہوں گے اس ایک شخص کو تا عمر اداس رہنا ہے یہ زیست تیرے ستم کی رہین ہے جاناں ترے فراق کو اس کی اساس رہنا ہے سو ...

    مزید پڑھیے

    شب وصال جو پہنا ترے بدن کا لباس

    شب وصال جو پہنا ترے بدن کا لباس تمام عمر نہ بھایا کسی بھی تن کا لباس عجیب سنگ تراشا ہے دست قدرت نے ترے بدن پہ قیامت ہے بانکپن کا لباس ہمیں ہے شوق ترا مخملیں بدن پہنیں خفا ہے ہم سے یوں نرگس کا نسترن کا لباس میں شعر کہتے ہوئے بھی اسی کو سوچتا ہوں بسا ہے اس کی ہی خوشبو میں فکر و فن ...

    مزید پڑھیے

    سوچا تھا تم نے درہم و دینار دیں گے لوگ

    سوچا تھا تم نے درہم و دینار دیں گے لوگ سر کاٹ دیں گے پھر تمہیں دستار دیں گے لوگ افلاس و تنگ دستی کا اعجاز یہ بھی ہے مانگو گے گر قلم تمہیں ہتھیار دیں گے لوگ پہلے پہل تو وصل کی لذت ملے گی اور پھر عمر بھر کو ہجر کا آزار دیں گے لوگ مجرم رہا ہوئے ہیں تو معصوم قید ہیں کس کو خبر تھی ایسی ...

    مزید پڑھیے

    خیال جاناں اتر رہا ہے دل حزیں پر

    خیال جاناں اتر رہا ہے دل حزیں پر ہے آسماں کا نزول یعنی مری زمیں پر میں لاکھ روٹھوں اسے منانے کا ڈھب پتہ ہے بس ایک بوسہ حسیں لبوں کا مری جبیں پر جہاں پہ ہم دونوں پچھلی سردی میں مل چکے ہیں رکھے ہیں اب بھی گلاب سوکھے ہوئے وہیں پر میں اس کی خاطر جنوں کی حد سے گزر گیا ہوں خدا کی بندی ...

    مزید پڑھیے

    وہ جو شاعری کا سبب ہوا

    وہ جو شاعری کا سبب ہوا مری زندگی کا سبب ہوا جسے دیکھ دیکھ سکوں ملا وہی بے کلی کا سبب ہوا کبھی وجہ تھا وہ گمان کی کبھی آگہی کا سبب ہوا شب ہجر تیرا خیال بھی بڑی روشنی کا سبب ہوا مرے دل کا ٹوٹنا پھوٹنا تیری دل لگی کا سبب ہوا جسے شاعری سے شغف نہ تھا وہی شاعری کا سبب ہوا

    مزید پڑھیے

    تنہائیوں میں شور قیامت بپا ہے خیر

    تنہائیوں میں شور قیامت بپا ہے خیر کس کی کمی ہے یاد نہیں آ رہا ہے خیر لازم ہے ہم کو دیکھنا جو کچھ فلک دکھائے اک بے وفا کے ہونٹوں پہ لفظ وفا ہے خیر تجھ سے بچھڑ کے زیست کا امکان ہی نہیں تو چھوڑ جان جاں یہ مرا مسئلہ ہے خیر خون جگر نے سرخ کیا دست ناز کو ان کو یہ لگ رہا ہے کہ رنگ حنا ہے ...

    مزید پڑھیے

    حسن جاناں کہ قیامت ہے اٹھائے رکھے

    حسن جاناں کہ قیامت ہے اٹھائے رکھے شہر کے شہر کو دیوانہ بنائے رکھے ایک وہ شخص یہاں تھا تو بڑی رونق تھی کون اس شہر میں اب شمعیں جلائے رکھے دل پریشاں تھا مگر جان تمہاری خاطر چہرہ شاداب رکھا بال بنائے رکھے ہجر میں حال سے بے حال ہوئے ہیں خود ہی کس میں ہمت ہے کہ کمرے کو سجائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2