خیال جاناں اتر رہا ہے دل حزیں پر
خیال جاناں اتر رہا ہے دل حزیں پر
ہے آسماں کا نزول یعنی مری زمیں پر
میں لاکھ روٹھوں اسے منانے کا ڈھب پتہ ہے
بس ایک بوسہ حسیں لبوں کا مری جبیں پر
جہاں پہ ہم دونوں پچھلی سردی میں مل چکے ہیں
رکھے ہیں اب بھی گلاب سوکھے ہوئے وہیں پر
میں اس کی خاطر جنوں کی حد سے گزر گیا ہوں
خدا کی بندی ہے اب بھی قائم نہیں نہیں پر
نہ جانے کتنی حسین آنکھیں مری طرف ہیں
مگر یہ آنکھیں ٹکی ہیں اس ایک نازنیں پر
ہماری غزلوں میں یوں تو سب کچھ ہی نارمل ہے
بس آنسوؤں کے نشاں ملیں گے کہیں کہیں پر
نہ شہرتوں کی بلندیوں پر گمان کرنا
پلٹ کے آنا پڑے گا اک دن تمہیں زمیں پر