تنہائیوں میں شور قیامت بپا ہے خیر
تنہائیوں میں شور قیامت بپا ہے خیر
کس کی کمی ہے یاد نہیں آ رہا ہے خیر
لازم ہے ہم کو دیکھنا جو کچھ فلک دکھائے
اک بے وفا کے ہونٹوں پہ لفظ وفا ہے خیر
تجھ سے بچھڑ کے زیست کا امکان ہی نہیں
تو چھوڑ جان جاں یہ مرا مسئلہ ہے خیر
خون جگر نے سرخ کیا دست ناز کو
ان کو یہ لگ رہا ہے کہ رنگ حنا ہے خیر
وہ آئینے کو دیکھتے ہیں آئینہ انہیں
اک آئینے کے سامنے اک آئینہ ہے خیر
تجھ کو تو خوب خوب ہے میرے دکھوں کا علم
تو تو مری حیات میں شامل رہا ہے خیر
ناصرؔ کمال شعر میں دعویٰ نہیں مگر
جو کچھ تھا میرے دل میں وہ سب کہہ دیا ہے خیر