شب وصال جو پہنا ترے بدن کا لباس
شب وصال جو پہنا ترے بدن کا لباس
تمام عمر نہ بھایا کسی بھی تن کا لباس
عجیب سنگ تراشا ہے دست قدرت نے
ترے بدن پہ قیامت ہے بانکپن کا لباس
ہمیں ہے شوق ترا مخملیں بدن پہنیں
خفا ہے ہم سے یوں نرگس کا نسترن کا لباس
میں شعر کہتے ہوئے بھی اسی کو سوچتا ہوں
بسا ہے اس کی ہی خوشبو میں فکر و فن کا لباس
میں اس کے جسم کے ہر زاویے کو بھانپ گیا
پہن کے آیا تھا ظالم عجب چلن کا لباس
وہ سرخ پوش ذرا دیر کو چمن میں گیا
تو ایک لمحے میں پھیکا پڑا چمن کا لباس
تری ہی ذات تو محور ہے شاعری کا مری
ترے خیال کو دیتا ہوں میں سخن کا لباس