بدلی ہوئی دل دار نظر دیکھ رہے ہیں
بدلی ہوئی دل دار نظر دیکھ رہے ہیں
دیکھی نہیں جاتی ہے مگر دیکھ رہے ہیں
کچھ لوگوں کی نظروں میں مری آبلہ پائی
کچھ لوگ مرا عزم سفر دیکھ رہے ہیں
ہے سامنے ان کے میرے ہونٹوں پہ تبسم
لیکن وہ مرا دیدۂ تر دیکھ رہے ہیں
یوں دیکھتے رہنے میں بصارت ہی گنوا دی
پر اب بھی تری راہ گزر دیکھ رہے ہیں
اک میں کہ فقط ان کی طرف دیکھ رہا ہوں
اک وہ ہیں کہ رب جانے کدھر دیکھ رہے ہیں
پہلے تو مرے ہاتھ قلم کر دئے اور اب
حیرت سے مرا کار ہنر دیکھ رہے ہیں
ناصرؔ ترے شانوں پہ ترے چاہنے والے
یہ بھی تو غنیمت ہے کہ سر دیکھ رہے ہیں