Naseem Syed

نسیم سید

ہند نژاد پاکستانی شاعرہ / کناڈا میں مقیم

Pakistani woman poet of Indian origin / Living in Canada

نسیم سید کے تمام مواد

9 غزل (Ghazal)

    جو ہم سے زندگی ہر دم خفا معلوم ہوتی ہے

    جو ہم سے زندگی ہر دم خفا معلوم ہوتی ہے ہمیں تو صاف اپنی ہی خطا معلوم ہوتی ہے ذرا سی بد گمانی تھی اور ان کا اب یہ عالم ہے دعا دیتے ہیں ان کو بد دعا معلوم ہوتی ہے لگائیں گے گلے سے کب وہ کب نظریں چرائیں گے ہمیں پہلے سے ان کی ہر ادا معلوم ہوتی ہے سنور جاتا ہے اس سے بات کرکے یوں مرا ...

    مزید پڑھیے

    نقش محرومی تقدیر کو تدبیر میں رکھ

    نقش محرومی تقدیر کو تدبیر میں رکھ سعی امکاں سے گزر شوق کو تعمیر میں رکھ اپنے احساس رفاقت کا بنا مجھ کو گواہ اور پھر میری گواہی مری تقصیر میں رکھ تو ہے مختار تجھے حق ہے تصرف پہ مرے میں کہ کھیتی تری تو مجھ کو بھی جاگیر میں رکھ رنگ سچے ہوں تو تصویر بھی بول اٹھتی ہے بے یقیں رنگوں کی ...

    مزید پڑھیے

    رستہ کوئی معیار سے ہٹ کر نہیں دیکھا

    رستہ کوئی معیار سے ہٹ کر نہیں دیکھا قامت سے کسی سائے کے گھٹ کر نہیں دیکھا دیوار انا سے تھیں پرے اس کی صدائیں پتھر ہوئے پر ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا کیا جانے کسی پیاسے کے کام آنے کی راحت کوزے میں سمندر نے سمٹ کر نہیں دیکھا ہر شہر کو اک ضد سی رہی گھر نہ بنا پائیں کس شہر کے دامن سے ...

    مزید پڑھیے

    تمام لہجوں میں لہجہ وہی جو پیار کا ہے

    تمام لہجوں میں لہجہ وہی جو پیار کا ہے تمام تحفوں میں تحفہ اک اعتبار کا ہے خزاں کے بیج زمینوں میں بو کے بیٹھے ہیں اور انتظار کسی موسم بہار کا ہے کسی بھی کار جنوں میں کوئی خسارہ نہیں خسارہ کوئی اگر ہے تو انتظار کا ہے تمام سود و زیاں کا حساب رہتا ہے تعلقات کا ہر لہجہ کاروبار کا ...

    مزید پڑھیے

    آداب ضبط عشق نہ رسوا کرے کوئی

    آداب ضبط عشق نہ رسوا کرے کوئی اپنی بساط دیکھ کے سودا کرے کوئی کیا طور ہر فراز سے اٹھے غبار شوق وہ سوز اشتیاق تو پیدا کرے کوئی کرتے ہیں غم سے مانجھ کے فطرت کو آب دار کار جنوں میں ہم سے افادہ کرے کوئی اٹھے دہن دریدہ سبھی دعویدار عشق اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی گزری ہے بار ...

    مزید پڑھیے

تمام

25 نظم (Nazm)

    میں گل نہیں

    میں گل نہیں مجھے دست صبا سے کام نہیں نہ مثل برگ نہ مانند گل نہ شاخ گلاب کہ تند و تیز ہواؤں سے کانپ کانپ اٹھوں کہ سرد و گرم سے موسم کے ڈر کے زیست کروں مجھے تو گرم ہواؤں نے مل کے پالا ہے زمیں کے حبس نے دم خم یہ مجھ میں ڈالا ہے کہ ایک ننھا سا بے حیثیت وجود مرا ذرا بھی نم جوں ہی مٹی میں ...

    مزید پڑھیے

    سمجھوتہ

    سمجھوتے کے دالانوں کی ہر چیز سجل سی ہوتی ہے ہر طاق سجا سا لگتا ہے اک فرض مسلسل کی دھن پر دو پیر تھرکتے رہتے ہیں ہاتھوں کی لکیروں میں لکھے دو بول کھنکتے رہتے ہیں ہمت کی چٹختی شاخوں سے کچے دن توڑے جاتے ہیں اور پال لگائی جاتی ہے راتوں کے بان کے بستر پر تہذیب کے گونگے جسموں کی سنجاب ...

    مزید پڑھیے

    تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی

    تم سے کترا کے نکلنے کا سبب ہے کوئی مل کے تم سے بڑی تنہائی سی ہو جاتی ہے گھر تلک ساتھ اک آہٹ سی چلی آتی ہے سب کواڑوں کو ارادوں کو مقفل کر لو پر یہ آہٹ ہے کہ دیواروں سے چھن آتی ہے خاک اڑا کرتی ہے جس صحن میں سناٹے کی واں عجب شوق کا دربار لگا ہوتا ہے رقص کرتی ہے مرے پاؤں تلے میری زمیں ہوش ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کی تلاش

    سیڑھیاں آسمان کی چڑھ کے چاند کے ایک ایک کونے میں زندگی کو تلاش کرتے ہیں اور صومالیہ کے صحرا میں ایک مٹھی اناج کی خاطر زندگی ایڑیاں رگڑتی ہے بھوکے بچے سسک کے مرتے ہیں

    مزید پڑھیے

    دعا

    آج کا دن کہ تمہارا دن ہے آج کی دھوپ میں نرمی بھی ہے حدت بھی ہے بام سے اتری ہیں کرنیں تمہیں چھونے کے لیے تم کو چھو لیں تو جدھر سے گزریں رنگ کا نور کا خوشبو کا اجالا پھیلے ہر طرف پھیلے امر ہو جائے تم کو چھو لیں چمن سے گزریں سرخ پھولوں سے گلے مل کے کہیں آج ہر رنگ امر ہو جائے آج کا دن کہ ...

    مزید پڑھیے

تمام