رستہ کوئی معیار سے ہٹ کر نہیں دیکھا
رستہ کوئی معیار سے ہٹ کر نہیں دیکھا
قامت سے کسی سائے کے گھٹ کر نہیں دیکھا
دیوار انا سے تھیں پرے اس کی صدائیں
پتھر ہوئے پر ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا
کیا جانے کسی پیاسے کے کام آنے کی راحت
کوزے میں سمندر نے سمٹ کر نہیں دیکھا
ہر شہر کو اک ضد سی رہی گھر نہ بنا پائیں
کس شہر کے دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
احساس کو ملتی نہیں اظہار کی خلعت
لفظوں کی اگر دھار پہ کٹ کر نہیں دیکھا