جو ہم سے زندگی ہر دم خفا معلوم ہوتی ہے

جو ہم سے زندگی ہر دم خفا معلوم ہوتی ہے
ہمیں تو صاف اپنی ہی خطا معلوم ہوتی ہے


ذرا سی بد گمانی تھی اور ان کا اب یہ عالم ہے
دعا دیتے ہیں ان کو بد دعا معلوم ہوتی ہے


لگائیں گے گلے سے کب وہ کب نظریں چرائیں گے
ہمیں پہلے سے ان کی ہر ادا معلوم ہوتی ہے


سنور جاتا ہے اس سے بات کرکے یوں مرا لہجہ
مجھے خود دل نشیں اپنی صدا معلوم ہوتی ہے


اکھاڑے خیمے اتنی بار ہم خانہ بدوشوں نے
کہ اب اپنی سی ہر آب و ہوا معلوم ہوتی ہے