آداب ضبط عشق نہ رسوا کرے کوئی

آداب ضبط عشق نہ رسوا کرے کوئی
اپنی بساط دیکھ کے سودا کرے کوئی


کیا طور ہر فراز سے اٹھے غبار شوق
وہ سوز اشتیاق تو پیدا کرے کوئی


کرتے ہیں غم سے مانجھ کے فطرت کو آب دار
کار جنوں میں ہم سے افادہ کرے کوئی


اٹھے دہن دریدہ سبھی دعویدار عشق
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی


گزری ہے بار بار صبا اک مقام سے
شاید کبھی ادھر کا ارادہ کرے کوئی


ایسا نہ ہو کہ ضبط کے آداب سے بھی جائیں
اس درجہ التفات نہ برتا کرے کوئی