Naqqash Ali Balooch

نقاش علی بلوچ

نقاش علی بلوچ کی غزل

    مرا دیار شناسائے رنگ و نور نہیں

    مرا دیار شناسائے رنگ و نور نہیں اگرچہ شمس و قمر اس نگر سے دور نہیں جمال و پیکر و اندام کی گھٹائیں ہیں کسی بھی دل پہ تجلیٔ کوہ طور نہیں خدا سے عشق کی پہلی حسیں نشانی ہے وہ اک نماز کہ جس میں خیال حور نہیں حجاب محمل لیلیٰ کو تو اٹھا نہ سکا کہ تیری آنکھ میں دیدار کا شعور نہیں نصاب ...

    مزید پڑھیے

    مزاج شوق میں ماموریت کا عزم بھی ہو

    مزاج شوق میں ماموریت کا عزم بھی ہو فقط سکون نہیں زندگی میں رزم بھی ہو شب اخیر چراغوں کی لو بجھے تو وہاں صدائے لا سے منور تمہاری بزم بھی ہو حیات موت ہے انداز حیدری کے بغیر ستیزہ گاہ میں حرف جنوں پہ جزم بھی ہو بمعہ شعور و ارادہ و جستجو و خرام ترے نصاب میں نقاشؔ باب حزم بھی ہو

    مزید پڑھیے

    ترے فلک پہ کہیں میرا ماہتاب نہیں

    ترے فلک پہ کہیں میرا ماہتاب نہیں وہ روشنی کا وسیلہ ترے جناب نہیں گنوا چکا ہے تو ساقیٔ حوض کوثر کو کہ تیرے ظرف میں اب تک شراب ناب نہیں تری زبان پہ اللہ ہو کا نعرہ ہے ترے شعار میں اللہ کی کتاب نہیں تو رو رہا ہے بنا مقصد حسینی کے تری عزا میں کہیں زینبی نصاب نہیں تری نگاہ طلب گار ...

    مزید پڑھیے

    وصال یار تمنائے خام ہے شاید

    وصال یار تمنائے خام ہے شاید یہ دور ہجر ابھی ناتمام ہے شاید جبین عشق نے جاں پہلی بار سجدہ کیا ترا نشان قدم وہ مقام ہے شاید میں جس کتاب کو ہر شام رو کے پڑھتا ہوں مرے صنم کی زباں کا کلام ہے شاید تمام زیر زبر پیش اور حرفوں کا برائے سوز و الم اہتمام ہے شاید بجھا سکا نہ میں اشکوں سے ...

    مزید پڑھیے

    قطرہ ہوں مگر رونق صحرا ہوں برا ہوں

    قطرہ ہوں مگر رونق صحرا ہوں برا ہوں مظلوم کے زخموں کا مسیحا ہوں برا ہوں وہ بیعت فرعون کے قائل ہیں سو اچھے میں وقت کے نمرود سے الجھا ہوں برا ہوں طاغوت زمانہ کو وہ دیتے ہیں سلامی میں اس کو خطا کار جو کہتا ہوں برا ہوں وہ شہر میں کرتے ہیں اندھیروں کی تجارت میں ظلم کی بستی کا اجالا ...

    مزید پڑھیے

    طمع کا دور ہے حاتم عطا کر

    طمع کا دور ہے حاتم عطا کر نجف کے شاہ سا حاکم عطا کر زمیں پر غاصبوں کی ہے حکومت زمیں کو موسیٔ کاظمؔ عطا کر تری دھرتی پہ تیرا عدل چاہیں نظام عدل کا ناظم عطا کر جو بھوکوں کو کھلائے نرم روٹی ہمیں مولا وہی ہاشم عطا کر ملے شاعر کو راز کن فکونی علی کے علم کا راقم عطا کر جو کاٹے مرحب و ...

    مزید پڑھیے

    زندگی موت کی پناہ میں ہے

    زندگی موت کی پناہ میں ہے یہ حقیقت مری نگاہ میں ہے زندگی غم کا استعارہ ہے درد جیون کے سال و ماہ میں ہے موت کے بعد پھر سے جینا ہے جانے کیا کیا دل الٰہ میں ہے کوئی مجنوں کی آنکھ سے دیکھے کس قدر نور رو سیاہ میں ہے اتنی رفتار روشنی کی نہیں جتنی سرعت کسی کی آہ میں ہے ملک کنعان غرق ...

    مزید پڑھیے

    زلف زنجیر پا ہوئی جب سے

    زلف زنجیر پا ہوئی جب سے ہم اسیر معاش ہیں تب سے مدرسوں نے بنا دیا نوکر عمر ساری گنوائی اس ڈھب سے پیٹ کی آگ کیوں نہیں بجھتی جستجو کر رہے ہیں ہم کب سے ہم فقط مانگ کر ہی جیتے ہیں کاش غیرت بھی مانگ لیں رب سے اس کو دولت نے کیا اٹھانا ہے گر گیا جو حیا کے مرکب سے ختم قرآں ہے نیکیوں کے ...

    مزید پڑھیے

    آدمی روشنی نہیں پائے

    آدمی روشنی نہیں پائے جب تلک بندگی نہیں پائے چار سو علم کے خزانے ہیں پر بشر آگہی نہیں پائے تار سیماب و سوزن زر سے چاک دامن کا سی نہیں پائے جام آب حیات سے پر تھا ایک قطرہ بھی پی نہیں پائے کتنے ناداں تھے مرنے والے سب جیسے جینا تھا جی نہیں پائے

    مزید پڑھیے

    خفی رہا یا جلی عالم شہود میں تھا

    خفی رہا یا جلی عالم شہود میں تھا میں امر کن سے بھی پہلے کسی وجود میں تھا کسی صدا نے برانگیختہ کیا مجھ کو وگرنہ میں بھی اسی حلقۂ خمود میں تھا مجھے شعور دیا بعثت پیمبر نے پھر اس کے بعد میں اللہ کے جنود میں تھا مجھے حسین نے ذرے سے ماہتاب کیا میں بے نشان تماشائے ہست و بود میں ...

    مزید پڑھیے