آدمی روشنی نہیں پائے

آدمی روشنی نہیں پائے
جب تلک بندگی نہیں پائے


چار سو علم کے خزانے ہیں
پر بشر آگہی نہیں پائے


تار سیماب و سوزن زر سے
چاک دامن کا سی نہیں پائے


جام آب حیات سے پر تھا
ایک قطرہ بھی پی نہیں پائے


کتنے ناداں تھے مرنے والے سب
جیسے جینا تھا جی نہیں پائے