قطرہ ہوں مگر رونق صحرا ہوں برا ہوں
قطرہ ہوں مگر رونق صحرا ہوں برا ہوں
مظلوم کے زخموں کا مسیحا ہوں برا ہوں
وہ بیعت فرعون کے قائل ہیں سو اچھے
میں وقت کے نمرود سے الجھا ہوں برا ہوں
طاغوت زمانہ کو وہ دیتے ہیں سلامی
میں اس کو خطا کار جو کہتا ہوں برا ہوں
وہ شہر میں کرتے ہیں اندھیروں کی تجارت
میں ظلم کی بستی کا اجالا ہوں برا ہوں
وہ شاہ ستم کار کے کہتے ہیں قصیدے
میں نوحۂ مظلوم جو کرتا ہوں برا ہوں
وہ خانقہی دین کے پیرو ہیں ازل سے
میں آج تلک صاحب الا ہوں برا ہوں
نقاشؔ وہی لا ہے مرے شعر و سخن میں
انجام شہادت ہے میں سچا ہوں برا ہوں