خفی رہا یا جلی عالم شہود میں تھا

خفی رہا یا جلی عالم شہود میں تھا
میں امر کن سے بھی پہلے کسی وجود میں تھا


کسی صدا نے برانگیختہ کیا مجھ کو
وگرنہ میں بھی اسی حلقۂ خمود میں تھا


مجھے شعور دیا بعثت پیمبر نے
پھر اس کے بعد میں اللہ کے جنود میں تھا


مجھے حسین نے ذرے سے ماہتاب کیا
میں بے نشان تماشائے ہست و بود میں تھا


نہ جد و جہد مسلسل نے سوز و ساز حیات
مثال شجر زمیں بوس میں جمود میں تھا


اندھیری رات میں ندرت ملی ستارے کو
تمام روز وہ ڈوبا ہوا کبود میں تھا


تلاش منزل ہستی میں خاک بازی کی
مرا مقام مگر قلعۂ عمود میں تھا


مجھے قیام کے قابل کیا ارادے نے
میں ایک عمر تلک حالت قعود میں تھا


وہ کر و فر تخیل کے ناشران تو تھے
مگر ہر ایک نمائش میں یا نمود میں تھا


میں مد و جزر تخیل کو اس کے نام کروں
کہ جس کا ذکر ہمیشہ مرے درود میں تھا


وہ تخت خاک پہ بیٹھا وہی قلندر ہے
کہ جس کے سامنے جبریل بھی سجود میں تھا


متاع قافلۂ عشق جب لٹی نقاشؔ
وہ میرے ملک ستم کیش کی حدود میں تھا