زندگی موت کی پناہ میں ہے
زندگی موت کی پناہ میں ہے
یہ حقیقت مری نگاہ میں ہے
زندگی غم کا استعارہ ہے
درد جیون کے سال و ماہ میں ہے
موت کے بعد پھر سے جینا ہے
جانے کیا کیا دل الٰہ میں ہے
کوئی مجنوں کی آنکھ سے دیکھے
کس قدر نور رو سیاہ میں ہے
اتنی رفتار روشنی کی نہیں
جتنی سرعت کسی کی آہ میں ہے
ملک کنعان غرق ظلمت ہے
ماہ کنعان اب بھی چاہ میں ہے
بن لڑے جنگ ہارنے والے
تیرا دشمن تری سپاہ میں ہے
قبر نقاشؔ ڈھونڈنے والو
میری مٹی خدا کی راہ میں ہے