مرا دیار شناسائے رنگ و نور نہیں

مرا دیار شناسائے رنگ و نور نہیں
اگرچہ شمس و قمر اس نگر سے دور نہیں


جمال و پیکر و اندام کی گھٹائیں ہیں
کسی بھی دل پہ تجلیٔ کوہ طور نہیں


خدا سے عشق کی پہلی حسیں نشانی ہے
وہ اک نماز کہ جس میں خیال حور نہیں


حجاب محمل لیلیٰ کو تو اٹھا نہ سکا
کہ تیری آنکھ میں دیدار کا شعور نہیں


نصاب ناب حسینی مری تمنا ہے
خطاب واعظ و درویش میں سرور نہیں


کشائے راز عزائے حسین کیسے ہو
تمہارے قلب میں راسخ مرا زبور نہیں


غم حسین میں روتا ہے لا نہیں کہتا
وہ جس کا جسم عدو کے تبر سے چور نہیں


چراغ بن کے اندھیری رتوں میں جلتا ہوں
سوائے اس کے مرا اور کچھ قصور نہیں


طلوع نور ہے نقاشؔ شعر آگاہی
اے وائے بخت اسی شعر کو ظہور نہیں