زلف زنجیر پا ہوئی جب سے

زلف زنجیر پا ہوئی جب سے
ہم اسیر معاش ہیں تب سے


مدرسوں نے بنا دیا نوکر
عمر ساری گنوائی اس ڈھب سے


پیٹ کی آگ کیوں نہیں بجھتی
جستجو کر رہے ہیں ہم کب سے


ہم فقط مانگ کر ہی جیتے ہیں
کاش غیرت بھی مانگ لیں رب سے


اس کو دولت نے کیا اٹھانا ہے
گر گیا جو حیا کے مرکب سے


ختم قرآں ہے نیکیوں کے لیے
ہم کو مطلب نہیں ہے مطلب سے


شیخ و صوفی اٹھا کے چنگ و رباب
دیکھ لڑنے چلے ہیں مرحب سے


تیرگی میں جلا کے دیپ نئے
دشمنی لے رہے ہیں ہم سب سے


تم اجالوں کی بات مت کرنا
تیرگی شہہ کے ساتھ ہے اب سے


چھوڑ نقاشؔ حرف سچائی
لوگ خائف ہیں تیرے مذہب سے