Naeem Gilani

نعیم گیلانی

نعیم گیلانی کی غزل

    میں کس سے پوچھتا کہ بھلا کیا کمی ہوئی

    میں کس سے پوچھتا کہ بھلا کیا کمی ہوئی تھا شور جس گلی میں وہاں خامشی ہوئی اک میں ہی تو نہیں ہوں پریشان و پر ملال اے شام تیرے ساتھ بھی اب کے بڑی ہوئی محفوظ کر نہ پائیں گے دیوار و بام و در میری فغاں ہوئی کہ وہ تیری ہنسی ہوئی دیوار جاں گرا کے ہی نکلے گی یاد یار ایک میخ جیسے دل کے ہے ...

    مزید پڑھیے

    یوں سنگ انتظار سے کب تک بندھے رہیں

    یوں سنگ انتظار سے کب تک بندھے رہیں دیوار نارسائی ہی کیوں دیکھتے رہیں گزرے نہ کوئی زود فراموش عمر بھر اور بے سبب گلی کے دریچے کھلے رہیں تم سے گلہ گزار ہے اپنی یہ بے گھری کب تک تمہارے خواب سے باہر پڑے رہیں حالت وہی ہے آج بھی ہم سنگ و خشت کی رکھ دے کوئی جہاں پہ وہیں پر دھرے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ رکتے ہوئے اور کہیں گزرتے ہوئے

    کہیں پہ رکتے ہوئے اور کہیں گزرتے ہوئے خجل تو خوب ہوئے ناظریں گزرتے ہوئے میں اک نگاہ کی دوری پہ ایستادہ تھا گزرنے والے نے دیکھا نہیں گزرتے ہوئے تری ہوائیں کہ جانا تھا اور سمت انہیں مرے نواح میں رک سی گئیں گزرتے ہوئے میں سب سے پہلے جسے بھولنے میں جلدی کی وہ یاد آیا دم آخریں ...

    مزید پڑھیے

    مثال موجۂ خوشبو بکھر گئے مرے دن

    مثال موجۂ خوشبو بکھر گئے مرے دن گزر گئیں مری راتیں گزر گئے مرے دن دعائے نیم شبی بے اثر گئی میری تمہارے ہوتے ہوئے بے ثمر گئے مرے دن جواب ارض و سما سے نہ بن پڑا کوئی میں ان سے پوچھ رہا تھا کدھر گئے مرے دن بس ایک بار محبت سے دل ہوا خالی پھر اس کے بعد اداسی سے بھر گئے مرے دن میں ...

    مزید پڑھیے

    جو خواب میں ہوا تھا واقعی نہ ہو

    جو خواب میں ہوا تھا واقعی نہ ہو کہ میں پکارتا رہوں کوئی نہ ہو چراغ بے سبب تو رو نہیں رہے جو شب گزر رہی ہے آخری نہ ہو جسے سکوت مرگ کا نشاں کہیں یہ خامشی کہیں وہ خامشی نہ ہو پڑی ہوئی ہے گرد سی جو وقت پر یہ چشم خواب زاد سے گری نہ ہو مجھے یہ حکم بھی سنا دیا گیا کہ ناؤ میں مرے سوا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    حد سے بڑھتی ہوئی تعزیر میں دیکھا جائے

    حد سے بڑھتی ہوئی تعزیر میں دیکھا جائے خواب کو خواب کی تعبیر میں دیکھا جائے دیکھنے کو میں فقط اتنا بچا ہوں یعنی مجھ کو اک منظر تصویر میں دیکھا جائے کھل بھی سکتا ہے جہاں پر مرا انداز جنوں زخم جو حلقۂ زنجیر میں دیکھا جائے صبر بھی جس کے نشانے پہ ہے اور سینہ بھی حوصلہ کتنا ہے اس تیر ...

    مزید پڑھیے

    نشیب ہجر میں دن اختتام کرتے ہوئے

    نشیب ہجر میں دن اختتام کرتے ہوئے میں خود میں ڈوبتا جاتا تھا شام کرتے ہوئے ہر ایک لہر ہے اپنے اسی بہاؤ میں میں تھک گیا ترے دریا کو رام کرتے ہوئے برس پڑا جو کسی روز مجھ پہ عکس مرا درون‌‌ آئنہ خانہ قیام کرتے ہوئے مرے سکوت کو دہرانے والے یہ در و بام سنائی دینے لگے ہیں کلام کرتے ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی جب تک غم سے مر نہیں جاتا میں

    یوں بھی جب تک غم سے مر نہیں جاتا میں رات گئے تک لوٹ کے گھر نہیں جاتا میں دیکھتا رہتا ہوں تجھ کو اس لمحے تک! جب تک سارا درد سے بھر نہیں جاتا میں اتنی دیر سمیٹوں سارے دکھ تیرے جتنی دیر اے دوست بکھر نہیں جاتا میں تیرے غم کا بوجھ اٹھاؤں گا جب تک کوہ غم سے پار اتر نہیں جاتا میں موت سے ...

    مزید پڑھیے

    گزرے وقت کی شاید تجھے خبر کم ہے

    گزرے وقت کی شاید تجھے خبر کم ہے مرے سفر میں کوئی تجھ سا ہم سفر کم ہے گلا معاف مگر میں جہاں پڑا ہوا ہوں مرے چراغ تری روشنی ادھر کم ہے شریک حال ہوئی تھی جہاں کہیں دنیا فقط وہیں سے ترا ہجر معتبر کم ہے گئی رتوں میں بہت گفتگو رہی جس سے بھرے چمن میں وہ بس ایک ہی شجر کم ہے تری نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    ایک تو عشق کی تقصیر کئے جاتا ہوں

    ایک تو عشق کی تقصیر کئے جاتا ہوں اس پہ میں پیروی‌‌ میرؔ کئے جاتا ہوں معذرت گھر کے چراغوں سے کروں گا کیسے میں جو تاخیر پہ تاخیر کئے جاتا ہوں یعنی تصویر زماں پر ہے تصرف اتنا دیکھتا جاتا ہوں تحریر کئے جاتا ہوں باغباں تجھ سے تو میں داد طلب ہوں بھی نہیں پیڑ سنتے ہیں میں تقریر کئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2