یوں سنگ انتظار سے کب تک بندھے رہیں

یوں سنگ انتظار سے کب تک بندھے رہیں
دیوار نارسائی ہی کیوں دیکھتے رہیں


گزرے نہ کوئی زود فراموش عمر بھر
اور بے سبب گلی کے دریچے کھلے رہیں


تم سے گلہ گزار ہے اپنی یہ بے گھری
کب تک تمہارے خواب سے باہر پڑے رہیں


حالت وہی ہے آج بھی ہم سنگ و خشت کی
رکھ دے کوئی جہاں پہ وہیں پر دھرے رہیں


یوں ہی کھڑے رہیں کسی منزل کی آس میں
گرد ملال ہجر سے رستے اٹے رہیں


پوچھے مرے مسیحا نفس سے کوئی نعیمؔ
طاق بدن میں زخم کہاں تک جلے رہیں