گزرے وقت کی شاید تجھے خبر کم ہے
گزرے وقت کی شاید تجھے خبر کم ہے
مرے سفر میں کوئی تجھ سا ہم سفر کم ہے
گلا معاف مگر میں جہاں پڑا ہوا ہوں
مرے چراغ تری روشنی ادھر کم ہے
شریک حال ہوئی تھی جہاں کہیں دنیا
فقط وہیں سے ترا ہجر معتبر کم ہے
گئی رتوں میں بہت گفتگو رہی جس سے
بھرے چمن میں وہ بس ایک ہی شجر کم ہے
تری نظر میں نہ ہوں گی وہ منتظر شمعیں
کہ دل گلی سے تو یوں بھی ترا گزر کم ہے
بدن سے آگے جو بڑھتا نہیں طبیب مرے
سو دل کے زخم کی جانب تری نظر کم ہے