حد سے بڑھتی ہوئی تعزیر میں دیکھا جائے
حد سے بڑھتی ہوئی تعزیر میں دیکھا جائے
خواب کو خواب کی تعبیر میں دیکھا جائے
دیکھنے کو میں فقط اتنا بچا ہوں یعنی
مجھ کو اک منظر تصویر میں دیکھا جائے
کھل بھی سکتا ہے جہاں پر مرا انداز جنوں
زخم جو حلقۂ زنجیر میں دیکھا جائے
صبر بھی جس کے نشانے پہ ہے اور سینہ بھی
حوصلہ کتنا ہے اس تیر میں دیکھا جائے
اس قدر دیدۂ گریاں کا تو حق بنتا ہے
اب اسے نالۂ شبگیر میں دیکھا جائے
تب کہیں درد اترتا ہے رگ و پے میں نعیمؔ
شعر جب میرؔ کی تاثیر میں دیکھا جائے