نشیب ہجر میں دن اختتام کرتے ہوئے
نشیب ہجر میں دن اختتام کرتے ہوئے
میں خود میں ڈوبتا جاتا تھا شام کرتے ہوئے
ہر ایک لہر ہے اپنے اسی بہاؤ میں
میں تھک گیا ترے دریا کو رام کرتے ہوئے
برس پڑا جو کسی روز مجھ پہ عکس مرا
درون آئنہ خانہ قیام کرتے ہوئے
مرے سکوت کو دہرانے والے یہ در و بام
سنائی دینے لگے ہیں کلام کرتے ہوئے
تمام عمر تری رہ گزر پہ بیٹھ رہا
مرا غبار ترا احترام کرتے ہوئے
یہ خامشی ہے تو رکئے بغور سنتے ہوئے
سخنوری ہے تو چلئے تمام کرتے ہوئے
گریز پائی کی حد سے گزر گیا تھا وہ شخص
نعیمؔ دور سے مجھ کو سلام کرتے ہوئے