میں کس سے پوچھتا کہ بھلا کیا کمی ہوئی

میں کس سے پوچھتا کہ بھلا کیا کمی ہوئی
تھا شور جس گلی میں وہاں خامشی ہوئی


اک میں ہی تو نہیں ہوں پریشان و پر ملال
اے شام تیرے ساتھ بھی اب کے بڑی ہوئی


محفوظ کر نہ پائیں گے دیوار و بام و در
میری فغاں ہوئی کہ وہ تیری ہنسی ہوئی


دیوار جاں گرا کے ہی نکلے گی یاد یار
ایک میخ جیسے دل کے ہے اندر گڑھی ہوئی


کھلتی ہی جا رہی ہے گرانباریٔ جنوں
زنجیر کیا ہے پاؤں سے میرے بندھی ہوئی


اب دیکھیے تو کیا یہ وہی چشم ہے نعیمؔ
زنبیل تھی کہ خوابوں سے کوئی بھری ہوئی