محمد فیاض حسرت کی غزل

    ہے کرم اس کا کہ انساں بھی عظیم الشاں ہوا

    ہے کرم اس کا کہ انساں بھی عظیم الشاں ہوا ورنہ تھی کیا بات جو نور خدا حیراں ہوا کیا کرے تعریف اس کی وہ بھی بندۂ خدا جس پہ یہ ذی روح کیا عالم سبھی نازاں ہوا اس کے کن کہنے سے عالم اور پھر کیا کیا بنا عقل انسانی سے بے شک راز یہ پنہاں ہوا جب ہے ساری کائنات اس کی عبادت میں مگن تو اسے ...

    مزید پڑھیے

    سنائے سچ کوئی تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں (ردیف .. ا)

    سنائے سچ کوئی تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں کہیں مجھ پر ذرا بھی شک ہوا تو مارا جاؤں گا کسی سے کوئی اب کیوں میرے مرنے کا سبب پوچھے یہ جب طے تھا کہ میں نے سچ کہا تو مارا جاؤں گا اٹھا کے میں قدم بچتا بھی کیسے جانتا تھا میں مرے حق میں مرا لب بھی ہلا تو مارا جاؤں گا سب آ کے لاش پر میری اب ...

    مزید پڑھیے

    تھا مرا سب پر بچا کچھ بھی نہیں

    تھا مرا سب پر بچا کچھ بھی نہیں اب مرا مجھ میں رہا کچھ بھی نہیں میں بھلا کیوں کہتا گر ملتی خوشی زندگی غم کے سوا کچھ بھی نہیں عمر خدمت کو دی اور اس کے عوض ایک ہستی نے لیا کچھ بھی نہیں یاں ضمیر انسان کا مر کھپ چکا اور کہتے ہو ہوا کچھ بھی نہیں اس کے جانے پر مجھے ایسا لگا جیسے میرا اب ...

    مزید پڑھیے

    حضور ایسے نہ کیجئے کوئی مر گیا تو

    حضور ایسے نہ کیجئے کوئی مر گیا تو بلا کا یہ وقت تم پہ آ کے ٹھہر گیا تو یہ فکر مجھ کو نہیں کہ خورشید منہ کو آوے یہ فکر مجھ کو کہ تیرے دل میں اتر گیا تو میں ترک مے تو کیے ہوئے ہوں پہ سوچتا ہوں کہ پیر مے میرے سامنے سے گزر گیا تو میں منتظر آپ کا رہوں گا پھر آئیے گا کروں میں کیسے یقیں ...

    مزید پڑھیے

    تمنا تھی سو مرقد پر گیا تھا

    تمنا تھی سو مرقد پر گیا تھا نہ سمجھو یہ کہ میں بھی مر گیا تھا خدا سے کیا گلہ سچ تو یہی ہے میں اپنی حسرتوں سے ڈر گیا تھا نگاہیں منتظر تھے ہاتھ خالی پھر اک مزدور کیسے گھر گیا تھا جو مشکل آ پڑی تو وہ نہ آئے مگر خوش ہوں کہ میں اکثر گیا تھا زمین و آسماں شاہد ہیں اس کے کہ پھیلا چار سو ...

    مزید پڑھیے

    سنگ اس کے ہی سفر ہو کیونکر

    سنگ اس کے ہی سفر ہو کیونکر زیست پہلے سی بسر ہو کیونکر جی جو چاہے ہے کہ مر جاؤں میں رات سے پہلے سحر ہو کیونکر اب کہاں قوت گویائی ہے ان کی باتوں کا اثر ہو کیونکر زندگی ایک سفر ہے سچ ہے ہو گماں کوئی مگر ہو کیونکر جب جیے کوئی کسی کی خاطر اس کو اپنی بھی خبر ہو کیونکر دل ہی پہلو سے ...

    مزید پڑھیے

    ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے

    ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے یہ صلہ تو انساں کی اپنی ہی خطا کا ہے لگ گئی وبائے بے اعتباری انساں کو پوچھیے نہ مجھ سے حال اب کہ جو دوا کا ہے حالت دل ناداں کیوں بگڑتی جائے ہے اب کہ مجھ پہ سایہ شاید کسی بلا کا ہے آہ و زاری ویرانی بے بسی و ناداری اے خدا یہ حال اب کیوں بندۂ خدا کا ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے لکھی ہے لہو سے داستاں تو کیا ہوا

    ہم نے لکھی ہے لہو سے داستاں تو کیا ہوا اس پہ حیراں گر نہیں کون و مکاں تو کیا ہوا ساتھ بابا کے کھلونے لینے گھر سے تھا چلا کوئی اعزاز یتیمی جو دے واں تو کیا ہوا لوگ کہتے تھے کہ ایسے غم میں یہ بھی روتے ہیں جو نہیں روئے زمین و آسماں تو کیا ہوا میرے بابا میری اماں میری آپی کے سوا ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہی بربادیٔ گلشن کا موجب تھے اور اب بھی ہیں (ردیف .. و)

    وہی بربادیٔ گلشن کا موجب تھے اور اب بھی ہیں چمن سارا ہو اس سے آشنا تو کیا تماشہ ہو کوئی پتا بنا جس کے اشارے کے نہیں ہلتا کٹہرے میں گر آئے وہ بلا تو کیا تماشہ ہو خدائی آفتوں سے وہ بلا مر سکتی ہے لیکن کسی انساں سے ہو یہ حادثہ تو کیا تماشہ ہو تماشہ دیس کا جس نے بنا رکھا ہے صدیوں ...

    مزید پڑھیے

    پھر نہ کچھ باقی نشاں میرا رہے

    پھر نہ کچھ باقی نشاں میرا رہے کچھ رہے تو بس بیاں میرا رہے جو جگر سے اٹھ رہا ہے دم بہ دم بعد میرے وہ دھواں میرا رہے کوئی چارہ ساز کوئی غم گسار بس کہ ایسا رازداں میرا رہے میں جیوں جتنا جیوں سب کے لیے زندگی کا یوں زیاں میرا رہے آبیاری میں لہو سے کر رہا بن خزاں کے گلستاں میرا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2