ہم نے لکھی ہے لہو سے داستاں تو کیا ہوا

ہم نے لکھی ہے لہو سے داستاں تو کیا ہوا
اس پہ حیراں گر نہیں کون و مکاں تو کیا ہوا


ساتھ بابا کے کھلونے لینے گھر سے تھا چلا
کوئی اعزاز یتیمی جو دے واں تو کیا ہوا


لوگ کہتے تھے کہ ایسے غم میں یہ بھی روتے ہیں
جو نہیں روئے زمین و آسماں تو کیا ہوا


میرے بابا میری اماں میری آپی کے سوا
ہے ملا انصاف بھی مجھ کو یہاں تو کیا ہوا


چشم گریہ اشکوں کا سیلاب تو اب تھم چکا
بعد پھر ہیں لیکن اب دریا رواں تو کیا ہوا


اک زمانہ تھا کہ بول اٹھتے تھے اکثر بے زباں
بولنے قابل نہیں اہل زباں تو کیا ہوا


میری دنیا میں لگی جو آگ تو سب جل گیا
راکھ سے حسرت ہے اٹھے بھی دھواں تو کیا ہوا