تمنا تھی سو مرقد پر گیا تھا

تمنا تھی سو مرقد پر گیا تھا
نہ سمجھو یہ کہ میں بھی مر گیا تھا


خدا سے کیا گلہ سچ تو یہی ہے
میں اپنی حسرتوں سے ڈر گیا تھا


نگاہیں منتظر تھے ہاتھ خالی
پھر اک مزدور کیسے گھر گیا تھا


جو مشکل آ پڑی تو وہ نہ آئے
مگر خوش ہوں کہ میں اکثر گیا تھا


زمین و آسماں شاہد ہیں اس کے
کہ پھیلا چار سو وہ شر گیا تھا


تھی مسجد دعوت مسلک تبھی میں
خدا کو ڈھونڈنے مندر گیا تھا


بنا کافر مسلماں اب ہے حسرت
میں کافر کو مسلماں کر گیا تھا