حضور ایسے نہ کیجئے کوئی مر گیا تو
حضور ایسے نہ کیجئے کوئی مر گیا تو
بلا کا یہ وقت تم پہ آ کے ٹھہر گیا تو
یہ فکر مجھ کو نہیں کہ خورشید منہ کو آوے
یہ فکر مجھ کو کہ تیرے دل میں اتر گیا تو
میں ترک مے تو کیے ہوئے ہوں پہ سوچتا ہوں
کہ پیر مے میرے سامنے سے گزر گیا تو
میں منتظر آپ کا رہوں گا پھر آئیے گا
کروں میں کیسے یقیں کہیں میں بھی مر گیا تو
میں کھل کے جیتا نہیں جیوں بھی بھلا میں کیسے
کہیں اگر جینے سے مرا بھی جی بھر گیا تو
ستارے کیا ہیں میں آسماں ہی لیے پھر آؤں
گماں یہ گزرے کہیں وہ کافر مکر گیا تو
وہ میرے حق میں گواہی دینے تو آ گیا ہے
ڈرا ہوں سچ کہنے سے کہیں وہ بھی ڈر گیا تو
تمہیں بھی حسرتؔ کی حالت حال پر نہیں رنج
غموں کا سیلاب سمت چھوڑے ادھر گیا تو