ہے کرم اس کا کہ انساں بھی عظیم الشاں ہوا
ہے کرم اس کا کہ انساں بھی عظیم الشاں ہوا
ورنہ تھی کیا بات جو نور خدا حیراں ہوا
کیا کرے تعریف اس کی وہ بھی بندۂ خدا
جس پہ یہ ذی روح کیا عالم سبھی نازاں ہوا
اس کے کن کہنے سے عالم اور پھر کیا کیا بنا
عقل انسانی سے بے شک راز یہ پنہاں ہوا
جب ہے ساری کائنات اس کی عبادت میں مگن
تو اسے کیا گر جو کوئی منکر یزداں ہوا
آزمائش تو خلیل اللہ کی پوری ہوئی
بعد اس کے کیسے کیسے آدمی قرباں ہوا
ہاں وہاں ہوگا میسر اختیار
میں نہ جانوں پھر مرا کیونکر نہ کم ارماں ہوا
ظلم انساں پر مسلسل ہے کیا کس نے سنو
مرتکب اس جرم کا ہائے کہ بس انساں ہوا
اے بیاباں ان درخشاں شہروں سے تھی کیا جلن
جو تری صورت کی مانند شہر یہ ویراں ہوا
اس طرح شاید سلامت تا قیامت تو رہے
ہو مبارک اب ترا دشمن ترا درباں ہوا
درجۂ عظمیٰ پہ فائز تو یہاں انصاف ہے
بے قصوروں و بے بسوں کا منتظر زنداں ہوا
یوں تو حسرت زندگی ساری مسلماں ہی رہا
وقت آخر وہ مگر میں صاحب ایماں ہوا