ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے

ہو رہا جو تم سمجھے فیصلہ خدا کا ہے
یہ صلہ تو انساں کی اپنی ہی خطا کا ہے


لگ گئی وبائے بے اعتباری انساں کو
پوچھیے نہ مجھ سے حال اب کہ جو دوا کا ہے


حالت دل ناداں کیوں بگڑتی جائے ہے
اب کہ مجھ پہ سایہ شاید کسی بلا کا ہے


آہ و زاری ویرانی بے بسی و ناداری
اے خدا یہ حال اب کیوں بندۂ خدا کا ہے


اب رہی دیانت داری نہ ہی وفاداری
لوگ کہتے ہیں بس یہ مسئلہ وفا کا ہے


ظلم کی طرف داری ایسے کیوں کرے کوئی
مان لیجئے سارا مسئلہ انا کا ہے


بجھ گئے چراغ آخر کیوں پتا چلا حسرتؔ
یہ قصور سارے کا سارا بس ہوا کا ہے