سنائے سچ کوئی تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں (ردیف .. ا)

سنائے سچ کوئی تو سانس بھی آہستہ لیتا ہوں
کہیں مجھ پر ذرا بھی شک ہوا تو مارا جاؤں گا


کسی سے کوئی اب کیوں میرے مرنے کا سبب پوچھے
یہ جب طے تھا کہ میں نے سچ کہا تو مارا جاؤں گا


اٹھا کے میں قدم بچتا بھی کیسے جانتا تھا میں
مرے حق میں مرا لب بھی ہلا تو مارا جاؤں گا


سب آ کے لاش پر میری اب آنسو کیوں بہاتے ہو
کہا تو تھا کہ میں حق پر رہا تو مارا جاؤں گا


یہاں آزاد تو ہیں سب نہ جانے کیوں مجھے ڈر ہے
کہ آزادی سمجھ کر میں جیا تو مارا جاؤں گا


پیے جاتے ہیں واں حسرت لہو انساں ہی انساں کا
میں بھولے سے بھی اس جانب گیا تو مارا جاؤں گا