محسن شافی کی غزل

    جو کر کے رفو پیرہن ناچتے ہیں

    جو کر کے رفو پیرہن ناچتے ہیں چھپانے کو درد کہن ناچتے ہیں ذرا بھی نہیں فکر سود و زیاں کی سر دار کیا بانکپن ناچتے ہیں ہوا تذکرہ جو ترے گیسوؤں کا مرے ساتھ اہل سخن ناچتے ہیں متاع سفر لوٹ کر قافلوں کی بھرے دشت میں راہزن ناچتے ہیں ترے نرم ہونٹوں کی حدت میں شافیؔ شگفتہ شگفتہ سمن ...

    مزید پڑھیے

    روز و شب کا نصاب لگتی ہے

    روز و شب کا نصاب لگتی ہے زندگی اک کتاب لگتی ہے دوستو کیا تمہیں مری صورت خستہ حال و خراب لگتی ہے عشق میں عمر جو گزاری ہے اب سنہرا سا خواب لگتی ہے کیا کہا وہ سن بلوغت میں اور بھی پر شباب لگتی ہے یہ تری آنکھ میں چھپی مستی مجھ کو موج شراب لگتی ہے گڑگڑا کر دعا جو مانگی تھی کیا تمہیں ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے رستے سے ہٹ گئے ہیں

    تمہارے رستے سے ہٹ گئے ہیں ہم اپنی جانب پلٹ گئے ہیں وہ جن کی شاخوں پہ جھولتے تھے شجر وہ گاؤں کے کٹ گئے ہیں سبھی کا قبلہ تو ایک ہے پر یہ لوگ فرقوں میں بٹ گئے ہیں ہوا ہے کس سے گناہ بادل بغیر برسے ہی چھٹ گئے ہیں یہ کیسی وحشت ہے لوگ شافیؔ گھروں میں اپنے سمٹ گئے ہیں

    مزید پڑھیے

    عین فطرت سے پیش آتے ہیں

    عین فطرت سے پیش آتے ہیں یعنی چاہت سے پیش آتے ہیں ظرف اپنا ہے ہم عدو سے بھی کچھ سہولت سے پیش آتے ہیں جو بھی ملتا ہے ان کے کوچے کا ہم عقیدت سے پیش آتے ہیں ساتھ مشکل میں چھوڑنے والے اب ندامت سے پیش آتے ہیں ایسے لوگوں سے دور رہتا ہوں جو ضرورت سے پیش آتے ہیں یہ ترے شہر کے مکیں ...

    مزید پڑھیے

    بھرے زخم پھر تازہ دم دیکھتے ہیں

    بھرے زخم پھر تازہ دم دیکھتے ہیں عجب دوستوں کے کرم دیکھتے ہیں کوئی لشکر فاتحیں جا رہا ہے فضاؤں میں اونچے علم دیکھتے ہیں خیال صنم بھی جمال صنم ہے اب اس طور روئے صنم دیکھتے ہیں بنی قتل گاہیں یہ گلیاں یہ کوچے عجب موت کا رقص ہم دیکھتے ہیں کہیں پل رہے ہیں امیروں کے کتے کہیں مفلسی ...

    مزید پڑھیے

    آہ بھرتے ہوئے نکلتے ہیں

    آہ بھرتے ہوئے نکلتے ہیں اشک جلتے ہوئے نکلتے ہیں خوف پھیلا ہے اتنا بستی میں لوگ ڈرتے ہوئے نکلتے ہیں ہم قلندر مزاج گلیوں میں رقص کرتے ہوئے نکلتے ہیں شام ہوتے ہی تیری یادوں کے سانپ ڈستے ہوئے نکلتے ہیں دل کی دھڑکن بدلنے لگتی ہے جب وہ ہنستے ہوئے نکلتے ہیں گھر سے ناد علی کا ہم ...

    مزید پڑھیے

    مسکرانے میں دن گزرتا ہے

    مسکرانے میں دن گزرتا ہے غم چھپانے میں دن گزرتا ہے آپ کا کیا ہے آپ کا اکثر دل دکھانے میں دن گزرتا ہے یاد آئے تو ان کے کوچے میں آنے جانے میں دن گزرتا ہے آج بھی میکدے میں ساقی کا مے پلانے میں دن گزرتا ہے روٹھ جاتا ہے ہم سے شافیؔ جب پھر منانے میں دن گزرتا ہے

    مزید پڑھیے

    اپنے قد میں رہتا ہوں

    اپنے قد میں رہتا ہوں یعنی حد میں رہتا ہوں کچھ تم نے تقسیم کیا کچھ فیصد میں رہتا ہوں اب تو اکثر تیرے ہی خال و خد میں رہتا ہوں زندہ ہوں نہ مردہ ہوں کیسی زد میں رہتا ہوں میرے نام کی فال ہے یہ اکثر رد میں رہتا ہوں

    مزید پڑھیے

    ان کے در کو دوا سمجھتے تھے

    ان کے در کو دوا سمجھتے تھے یعنی دار الشفا سمجھتے تھے کیوں نہ آتا عذاب بستی پر لوگ خود کو خدا سمجھتے تھے وہ بھی اپنی قبیل کا نکلا ہم جسے پارسا سمجھتے تھے ہم پہنتے تھے جوتے ابا کے اور خود کو بڑا سمجھتے تھے وہ نظر کا فریب تھا شافیؔ ہم جسے قافلہ سمجھتے تھے

    مزید پڑھیے

    تتلیوں کی حسین سنگت سے

    تتلیوں کی حسین سنگت سے پھول کھلنے لگے ہیں نکہت سے ایسا گزرا ہے اک زمانہ بھی میں بھی چاہا گیا تھا شدت سے ٹوٹ جانے کے باوجود یہ دل باز آیا نہیں محبت سے شعر ہوتا ہے داد ملتی ہے جونؔ محسنؔ فرازؔ ثروتؔ سے یہ مجھے آج کل ہوا کیا ہے ورد کرتا ہوں تیرا کثرت سے ہوش شافی گنوا نہ بیٹھیں ...

    مزید پڑھیے