آہ بھرتے ہوئے نکلتے ہیں

آہ بھرتے ہوئے نکلتے ہیں
اشک جلتے ہوئے نکلتے ہیں


خوف پھیلا ہے اتنا بستی میں
لوگ ڈرتے ہوئے نکلتے ہیں


ہم قلندر مزاج گلیوں میں
رقص کرتے ہوئے نکلتے ہیں


شام ہوتے ہی تیری یادوں کے
سانپ ڈستے ہوئے نکلتے ہیں


دل کی دھڑکن بدلنے لگتی ہے
جب وہ ہنستے ہوئے نکلتے ہیں


گھر سے ناد علی کا ہم شافیؔ
ورد کرتے ہوئے نکلتے ہیں