روز و شب کا نصاب لگتی ہے
روز و شب کا نصاب لگتی ہے
زندگی اک کتاب لگتی ہے
دوستو کیا تمہیں مری صورت
خستہ حال و خراب لگتی ہے
عشق میں عمر جو گزاری ہے
اب سنہرا سا خواب لگتی ہے
کیا کہا وہ سن بلوغت میں
اور بھی پر شباب لگتی ہے
یہ تری آنکھ میں چھپی مستی
مجھ کو موج شراب لگتی ہے
گڑگڑا کر دعا جو مانگی تھی
کیا تمہیں مستجاب لگتی ہے
جس میں اس کی نہ یاد ہو شافیؔ
ایسی ساعت عذاب لگتی ہے