تمہارے رستے سے ہٹ گئے ہیں
تمہارے رستے سے ہٹ گئے ہیں
ہم اپنی جانب پلٹ گئے ہیں
وہ جن کی شاخوں پہ جھولتے تھے
شجر وہ گاؤں کے کٹ گئے ہیں
سبھی کا قبلہ تو ایک ہے پر
یہ لوگ فرقوں میں بٹ گئے ہیں
ہوا ہے کس سے گناہ بادل
بغیر برسے ہی چھٹ گئے ہیں
یہ کیسی وحشت ہے لوگ شافیؔ
گھروں میں اپنے سمٹ گئے ہیں