زندگانی کی مسرت بھی جدا ہم سے ہوئی
زندگانی کی مسرت بھی جدا ہم سے ہوئی
جرم یہ تھا کہ نہ تردید خدا ہم سے ہوئی
ہم گنہ گار سہی پھر بھی ترے بندے ہیں
ہر شب غم میں خدا تیری ثنا ہم سے ہوئی
سر اٹھاتے ہوئے چلتے رہے صحراؤں میں
کسی حالت میں نہ مجروح انا ہم سے ہوئی
کوئی ایسا تھا جو کہتا نہ بروں کو بھی برا
بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
ہم تو بس تیرے سہارے ہی چلے ہیں اب تک
جانے کیوں آج تو برگشتہ صبا ہم سے ہوئی
حلف لے کر جو کٹہرے میں گئے ہم خورشیدؔ
تیرا ہی نام لیا اتنی خطا ہم سے ہوئی