رشتۂ دل کو میں نے توڑ دیا

رشتۂ دل کو میں نے توڑ دیا
بات کرنا بھی ان سے چھوڑ دیا


اب نہ آنسو ہیں اور نہ آہیں ہیں
دل کو ان کی طرف سے موڑ دیا


ان کے جانے پہ یہ ہوا محسوس
روح نے گویا جسم چھوڑ دیا


آبلے چلنے میں جو تھے حائل
خار صحرا نے ان کو پھوڑ دیا


ہے یقیناً وہ قابل توصیف
جس نے ٹوٹے دلوں کو جوڑ دیا


وقت کا زور اس پہ کیا جس نے
پنجۂ وقت کو مروڑ دیا


اس نے آنسو کی آرزو کی تھی
ہم نے خورشیدؔ دل نچوڑ دیا