لفظ بے معنی
لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر لفظ گوتم کا عرفاں نہیں کفارۂ ابن مریم نہیں اور غار حرا بھی نہیں زندہ رہنے کی خاطر لفظ کے گرد معنی کا ہالہ بناتے ہیں لوگ لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر
لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر لفظ گوتم کا عرفاں نہیں کفارۂ ابن مریم نہیں اور غار حرا بھی نہیں زندہ رہنے کی خاطر لفظ کے گرد معنی کا ہالہ بناتے ہیں لوگ لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر
پلیگ ہیضہ و چیچک و زلزلے سیلاب ہری بھری سی فصل کل تلک اجاڑتے تھے مگر آج کہیں شعلوں دھماکوں کی شکل لیتے ہیں کہیں یہ خون کی ہولی کا روپ بھرتے ہیں ہری بھری سی فصل اب بھی یہ اجاڑتے ہیں فساد خون میں شامل ہے شاید فصد یہ کھولتے رہتے ہیں شاید
یہ آئینے ہیں اپنے ظرف کی مانند ہی تو عکس دیتے ہیں محدب آئینے اک راکشس کا روپ دینے میں معقر آئینے بونا بنا دیتے ہیں مجھ کو سادہ آئینے بے چارے خود حیران ہیں بھلا وہ کیا بتا سکتے ہیں کیا ہوں میں دل کے آئینے میں ڈھونڈھتا ہوں خود کو کب سے
یہ دھتورا ہے کانٹوں بھرا اور وہ اس کا ہے ہم سفر زندگی کا انتم سفر نیچے کانٹوں کا بستر اور اوپر سے کرنوں کے نیزے یا وہ گردش کرے یا وہ کروٹ ہی بدلے ازل سے وہ زخموں سے ہے چور چور جانے کتنے سہے اس نے دکھ اپنے لمبے سفر میں کتنے آنسو بہائے ہیں اس نے خون کے سات ساگر بنے ہیں کون اندازہ کر ...
تنہائیٔ دل جب بڑھتی ہے جب یاس کی گہری تاریکی دنیائے دل پر چھاتی ہے چپکے سے تری یادوں کی کرن چلمن کو ہٹا کر آتی ہے اور دل مرا بہلاتی ہے تم دور ہوئی جوں ہی ہم سے یادوں کے شبستاں جاگ اٹھے پھر دل کی کلی مسکا نہ سکی اور گیت خوشی کے گا نہ سکی اک تم ہو ہم سے دور کہیں زر کار جھروکے میں ...
لفظ تنہا کوئی معنی رکھتا نہیں اپنے معنی کی خاطر الفاظ کی بھیڑ میں خود کو کھونا پڑے گا ورنہ حرف غلط کی طرح صفحۂ دہر سے وہ بھی مٹ جائے گا
خون پانی نہیں رنگ و روغن نہیں پھر بھی تاریخ رنگین ہے خون سے اور صحیفے ہیں مہکے ہوئے خون سے خون سے تر ہے دامن ہر اک خون کا خون سب کی رگوں میں تو ہوگا ضرور پھر بھی کیوں خون کا اتنا پیاسا ہے خون خون پھر خون کا خون کرتا ہے کیوں
وقت ساکت اور جامد جیسے سورج اور یہ احساس کی دھرتی ہے جو پھرتی ہے اس کے گرد جس کو ہم نے بھول سے سمجھا ہے ماضی حال مستقبل
رات کا قافلہ تیزی سے گزر جاتا ہے نقش پا جس کے سر راہ جگمگاتے تھے مٹتے جاتے ہیں مثل حرف غلط آسماں کے صفحہ سے میں اک درماندہ راہ رو کی طرح ان کی راہوں میں بچھائے ہوئے پلکوں کے کنول کب سے بیٹھا ہوں میں یکا تنہا ہر اک آواز پہ دل میرا دھڑک اٹھتا ہے جب صبا چلتی ہے خوشبو کو جلو میں لے کر ان ...