Kareem Roomani

کریم رومانی

کریم رومانی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    نظر عالم کی بن جائے وہ ہوگا کب بشر پیدا

    نظر عالم کی بن جائے وہ ہوگا کب بشر پیدا بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا قصور اپنا ہی تھا جو اس ستم گر کی تمنا کی نہ ہوتی یہ خلش دل میں نہ ہوتا یہ شرر پیدا رخ روشن پہ زلفوں کا یہ لہرانا یہ اڑ جانا مری دنیائے دل میں کرتے ہیں شام و سحر پیدا اسیران قفس مایوس ہونے کی ضرورت ...

    مزید پڑھیے

    شکوہ نہ کریں گے کبھی ہم برق و شرر سے

    شکوہ نہ کریں گے کبھی ہم برق و شرر سے گلشن میں تو خود آگ لگی ہے گل تر سے وہ لوگ تو ساحل پہ بھی ڈوبیں گے یقیناً گھبرا کے پلٹتے ہیں جو طوفان کے ڈر سے تر دامنی پہ طنز نہ کر میری اے واعظ دامن نہ کہیں تر ہو ترا دامن تر سے کیا کوئی مۂ خوبی نکل آیا سر شام تارے بھی نظر آتے گردوں میں شرر ...

    مزید پڑھیے

    شکوۂ جور و جفا کون کرے

    شکوۂ جور و جفا کون کرے ان سے امید وفا کون کرے کعبۂ دل میں صنم رہتا ہے جان کو دل سے جدا کون کرے وقت خود چارہ گر اعظم ہے زخم الفت کی دوا کون کرے لو اٹھا مثل دھواں رومانیؔ ان کی محفل میں جلا کون کرے

    مزید پڑھیے

    موت تھی زندگی تھی یاد نہیں

    موت تھی زندگی تھی یاد نہیں کون مجھ سے ملی تھی یاد نہیں ہم نے روشن تو کی تھی شمع وفا وہ جلی تھی بجھی تھی یاد نہیں خاک تو ہو گیا تھا پروانہ شمع کیوں رو پڑی تھی یاد نہیں اشک شبنم پہ مسکراتے ہیں آپ تھے یا کلی تھی یاد نہیں کوئی مل کے گلے تو روتا تھا آپ تھے یا خوشی تھی یاد نہیں بزم ...

    مزید پڑھیے

    سمٹا تو میں ذرہ ہوں بکھرا تو میں صحرا ہوں

    سمٹا تو میں ذرہ ہوں بکھرا تو میں صحرا ہوں تھم جاؤں تو قطرہ ہوں بہہ جاؤں تو دریا ہوں کیوں طور پہ میں جاؤں کیوں عرش پہ میں جاؤں اس کا ہی تو پرتو ہوں میں اس کے سوا کیا ہوں کیا کوئی شریک غم ہوگا مرا دنیا میں وہ عرش پہ تنہا ہے میں فرش پہ تنہا ہوں سورج سے شعاعیں کب ہوتی ہیں جدا اس سے وہ ...

    مزید پڑھیے

تمام

9 نظم (Nazm)

    لفظ بے معنی

    لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر لفظ گوتم کا عرفاں نہیں کفارۂ ابن مریم نہیں اور غار حرا بھی نہیں زندہ رہنے کی خاطر لفظ کے گرد معنی کا ہالہ بناتے ہیں لوگ لفظ کے اندھے کنویں میں معنی کا تارا بھی آتا نہیں ہے نظر

    مزید پڑھیے

    فساد

    پلیگ ہیضہ و چیچک و زلزلے سیلاب ہری بھری سی فصل کل تلک اجاڑتے تھے مگر آج کہیں شعلوں دھماکوں کی شکل لیتے ہیں کہیں یہ خون کی ہولی کا روپ بھرتے ہیں ہری بھری سی فصل اب بھی یہ اجاڑتے ہیں فساد خون میں شامل ہے شاید فصد یہ کھولتے رہتے ہیں شاید

    مزید پڑھیے

    آئینے

    یہ آئینے ہیں اپنے ظرف کی مانند ہی تو عکس دیتے ہیں محدب آئینے اک راکشس کا روپ دینے میں معقر آئینے بونا بنا دیتے ہیں مجھ کو سادہ آئینے بے چارے خود حیران ہیں بھلا وہ کیا بتا سکتے ہیں کیا ہوں میں دل کے آئینے میں ڈھونڈھتا ہوں خود کو کب سے

    مزید پڑھیے

    ارض و سما

    یہ دھتورا ہے کانٹوں بھرا اور وہ اس کا ہے ہم سفر زندگی کا انتم سفر نیچے کانٹوں کا بستر اور اوپر سے کرنوں کے نیزے یا وہ گردش کرے یا وہ کروٹ ہی بدلے ازل سے وہ زخموں سے ہے چور چور جانے کتنے سہے اس نے دکھ اپنے لمبے سفر میں کتنے آنسو بہائے ہیں اس نے خون کے سات ساگر بنے ہیں کون اندازہ کر ...

    مزید پڑھیے

    یاد ماضی

    تنہائیٔ دل جب بڑھتی ہے جب یاس کی گہری تاریکی دنیائے دل پر چھاتی ہے چپکے سے تری یادوں کی کرن چلمن کو ہٹا کر آتی ہے اور دل مرا بہلاتی ہے تم دور ہوئی جوں ہی ہم سے یادوں کے شبستاں جاگ اٹھے پھر دل کی کلی مسکا نہ سکی اور گیت خوشی کے گا نہ سکی اک تم ہو ہم سے دور کہیں زر کار جھروکے میں ...

    مزید پڑھیے

تمام