انتظار

رات کا قافلہ تیزی سے گزر جاتا ہے
نقش پا جس کے سر راہ جگمگاتے تھے
مٹتے جاتے ہیں مثل حرف غلط آسماں کے صفحہ سے
میں اک درماندہ راہ رو کی طرح
ان کی راہوں میں بچھائے ہوئے پلکوں کے کنول
کب سے بیٹھا ہوں میں
یکا تنہا
ہر اک آواز پہ دل میرا دھڑک اٹھتا ہے
جب صبا چلتی ہے خوشبو کو جلو میں لے کر
ان کی مہکی ہوئی زلفوں کا خیال آتا ہے
نظر اٹھا کے جو دیکھا تو
دور دور تلک
ان کا سایہ پس دیوار بھی آیا نہ نظر
افق کے پار سے اٹھتا ہے مشعلوں کا دھواں
قافلہ ہو گیا آسودۂ منزل شاید
چاند کی شمع بجھی
دل کا دیا بجھ سا گیا
اور وہ صبح کا تارا
مری آشا کی طرح ڈوب گیا
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا