یاد ماضی
تنہائیٔ دل جب بڑھتی ہے
جب یاس کی گہری تاریکی دنیائے دل پر چھاتی ہے
چپکے سے تری یادوں کی کرن
چلمن کو ہٹا کر آتی ہے
اور دل مرا بہلاتی ہے
تم دور ہوئی جوں ہی ہم سے
یادوں کے شبستاں جاگ اٹھے
پھر دل کی کلی مسکا نہ سکی
اور گیت خوشی کے گا نہ سکی
اک تم ہو ہم سے دور کہیں
زر کار جھروکے میں بیٹھی
یادوں کو بھلائے جاتی ہو
اک ہم ہیں تیری راہوں میں
پلکوں کو بچھائے بیٹھے ہیں
شاید کہ ترا ہو جائے گزر
افلاس کے ان صحراؤں سے
دنیا کے ان ویرانوں سے