Kaleem Qaisar Balrampuri

کلیم قیصر بلرام پوری

کلیم قیصر بلرام پوری کی غزل

    جاہ و حشمت کے لئے رتبہ و عزت کے لئے

    جاہ و حشمت کے لئے رتبہ و عزت کے لئے لوگ بدنام ہوئے جاتے ہیں شہرت کے لئے اب ہمیں ننگ جہاں کہتے ہیں کہنے والے ہم تھے مشہور زمانے میں شرافت کے لئے پھوٹ سکتی ہیں کہیں سے بھی کشش کی کرنیں پردۂ چشم ہی کافی نہیں عورت کے لئے ٹوٹ کر اپنے بکھرنے کا نہ ہوتا احساس تم نہ تیار ہوئے ہوتے جو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا

    کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا تم ضد پہ اڑے تم شک میں پڑے تم خود ہی کہو بتلائیں کیا کوئی کرب نہیں کوئی درد نہیں چہرہ بھی ہمارا زرد نہیں جب دل میں نہ اٹھے ٹیس کوئی پھر سچا شعر سنائیں کیا ہم دل کو کیا ناشاد کریں کیا وقت اپنا برباد کریں بے وجہ تمہیں کیا یاد ...

    مزید پڑھیے

    روشن کچھ امکان نہیں ہے

    روشن کچھ امکان نہیں ہے گھر میں روشندان نہیں ہے دنیا سے سمبندہ نہ رکھنا مشکل ہے آسان نہیں ہے جسم نظر آتے ہیں لیکن ان میں کوئی جان نہیں ہے اس کو تم برباد نہ کرنا دل افغانستان نہیں ہے دل سے پڑھ قرآن کو قیصرؔ غالبؔ کا دیوان نہیں ہے

    مزید پڑھیے

    وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو

    وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو تو کیوں دنیا کی پروا کر رہے ہو سمجھتے بھی ہو خوابوں کی حقیقت مگر خوابوں کا پیچھا کر رہے ہو اسی سے تم جھگڑتے بھی ہو ہر پل اسی کی ہی تمنا کر رہے ہو یہ طے سمجھو ملے گی کامیابی اگر دل سے ارادہ کر رہے ہو اسے تم دوست بھی کہتے ہو قیصرؔ اسی کے ساتھ دھوکہ کر ...

    مزید پڑھیے

    کسی کو فکر جو دی ہے تو فن نہیں دیتا

    کسی کو فکر جو دی ہے تو فن نہیں دیتا وہ سب کو ایک سا طرز سخن نہیں دیتا میں اپنی خانہ نشینی میں ہر طرح خوش ہوں نہ دے کوئی جو مجھے انجمن نہیں دیتا اسے خبر ہے کہ طرز خطاب جانتا ہوں اسی لئے مجھے اذن سخن نہیں دیتا بڑے نصیب سے ملتی ہے ایسی جامہ دری خدا ہر ایک کو دیوانہ پن نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بڑے بوڑھے ہمارے جس کو بربادی سمجھتے ہیں

    بڑے بوڑھے ہمارے جس کو بربادی سمجھتے ہیں نئی نسلوں کے لڑکے اس کو آزادی سمجھتے ہیں چلو دکھلا ہی دیں اب قوت بازو کے کچھ جوہر یہ اہل ظلم ہم کو نقش فریادی سمجھتے ہیں انا کے رنگ محلوں میں وہ جوگن بن کے بیٹھی ہے جسے بستی کے سارے لوگ شہزادی سمجھتے ہیں ہمارے کھیتوں میں خوشبو ہے ہریالی ...

    مزید پڑھیے

    سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

    سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے بڑی طویل کہانی تھی مختصر کی ہے تو مجھ کو خاک سمجھتا ہے خاک سمجھا کر مگر یہ دیکھ کہ یہ خاک کس کے در کی ہے وہ جس کی چھاؤں میں آنے سے جسم جل جائے تری مثال تو اے دوست اس شجر کی ہے تمہاری یاد کا مرہم لگائے پھرتے ہیں یہ چوٹ تم نے جو دی ہے وہ عمر بھر کی ...

    مزید پڑھیے

    وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں

    وہی زمانہ وہی ماہ و سال اوڑھے ہیں بہت دنوں سے تمہارا خیال اوڑھے ہیں شعاع مہر نے مجھ سے کہا بہ وقت شام عروج والے یہاں سب زوال اوڑھے ہیں ادب سے بیٹھیے آ کر کے ہم فقیروں میں یہاں کے ٹاٹ نشیں سب کمال اوڑھے ہیں سجائے بیٹھے ہیں وہ تہمتیں زبانوں پر اور ایک ہم ہیں کہ اب تک مثال اوڑھے ...

    مزید پڑھیے

    کہہ چکے ہیں سب بچا کچھ بھی نہیں

    کہہ چکے ہیں سب بچا کچھ بھی نہیں میرے شعروں میں نیا کچھ بھی چل رہے ہیں حسرتوں کے نام پر ہے کہاں جانا پتا کچھ بھی نہیں دل یہ کہتا ہے کہ میں نے سن لیا اس نے حالانکہ کہا کچھ بھی نہیں اب تو قیمت زور و زر کی ہے یہاں پیار ایثار و وفا کچھ بھی نہیں سر جھکاتا پھر رہا ہے در بدر وہ جو کہتا ...

    مزید پڑھیے

    گرچہ محفوظ رہے پھول ثمر ہونے تک

    گرچہ محفوظ رہے پھول ثمر ہونے تک پھر انہیں روک نہ پاؤ گے شجر ہونے تک دل میں بس جاؤ کہ یہ در بدری ٹھیک نہیں اس مکاں میں ہی رہو تم کوئی گھر ہونے تک تم تو سورج کے پرستار ہو تم کیا جانو کیا گزر جاتی ہے اک شب پہ سحر ہونے تک تھکنے والے نہیں اس راہ کے راہی ہرگز کرتے جائیں گے سفر گرد سفر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2