وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو

وفاداری کا دعویٰ کر رہے ہو
تو کیوں دنیا کی پروا کر رہے ہو


سمجھتے بھی ہو خوابوں کی حقیقت
مگر خوابوں کا پیچھا کر رہے ہو


اسی سے تم جھگڑتے بھی ہو ہر پل
اسی کی ہی تمنا کر رہے ہو


یہ طے سمجھو ملے گی کامیابی
اگر دل سے ارادہ کر رہے ہو


اسے تم دوست بھی کہتے ہو قیصرؔ
اسی کے ساتھ دھوکہ کر رہے ہو