گرچہ محفوظ رہے پھول ثمر ہونے تک

گرچہ محفوظ رہے پھول ثمر ہونے تک
پھر انہیں روک نہ پاؤ گے شجر ہونے تک


دل میں بس جاؤ کہ یہ در بدری ٹھیک نہیں
اس مکاں میں ہی رہو تم کوئی گھر ہونے تک


تم تو سورج کے پرستار ہو تم کیا جانو
کیا گزر جاتی ہے اک شب پہ سحر ہونے تک


تھکنے والے نہیں اس راہ کے راہی ہرگز
کرتے جائیں گے سفر گرد سفر ہونے تک


حوصلے ذرۂ ناچیز کے دیکھو قیصرؔ
ظلمت شب سے لڑے شمس و قمر ہونے تک