سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے

سنبھل سنبھل کے یہاں زندگی بسر کی ہے
بڑی طویل کہانی تھی مختصر کی ہے


تو مجھ کو خاک سمجھتا ہے خاک سمجھا کر
مگر یہ دیکھ کہ یہ خاک کس کے در کی ہے


وہ جس کی چھاؤں میں آنے سے جسم جل جائے
تری مثال تو اے دوست اس شجر کی ہے


تمہاری یاد کا مرہم لگائے پھرتے ہیں
یہ چوٹ تم نے جو دی ہے وہ عمر بھر کی ہے


نہ صرف پاؤں ہوئے ذہن و دل بھی شل جس میں
تھکن تو آج بھی قیصرؔ اسی سفر کی ہے