کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا
کوئی راز نہیں کوئی بھید نہیں سب ظاہر ہے تو چھپائیں کیا
تم ضد پہ اڑے تم شک میں پڑے تم خود ہی کہو بتلائیں کیا
کوئی کرب نہیں کوئی درد نہیں چہرہ بھی ہمارا زرد نہیں
جب دل میں نہ اٹھے ٹیس کوئی پھر سچا شعر سنائیں کیا
ہم دل کو کیا ناشاد کریں کیا وقت اپنا برباد کریں
بے وجہ تمہیں کیا یاد کریں آنکھوں کو خون رلائیں کیا
اب ساتھ جو تیرا چھوٹ گیا اک خواب تھا سو وہ ٹوٹ گیا
کیا رہ رہ اس کو یاد کریں اور رو رو کر پچھتائیں کیا
جب امن و سکوں ہے بستی میں کوئی کھوٹ نہیں ہے مستی میں
ویرانی یہ کسی چاروں طرف کرتا ہے یہ سائیں سائیں کیا