کہہ چکے ہیں سب بچا کچھ بھی نہیں
کہہ چکے ہیں سب بچا کچھ بھی نہیں
میرے شعروں میں نیا کچھ بھی
چل رہے ہیں حسرتوں کے نام پر
ہے کہاں جانا پتا کچھ بھی نہیں
دل یہ کہتا ہے کہ میں نے سن لیا
اس نے حالانکہ کہا کچھ بھی نہیں
اب تو قیمت زور و زر کی ہے یہاں
پیار ایثار و وفا کچھ بھی نہیں
سر جھکاتا پھر رہا ہے در بدر
وہ جو کہتا تھا خدا کچھ بھی نہیں