Jyoti Azad Khatri

جیوتی آزاد کھتری

جیوتی آزاد کھتری کی غزل

    وہ کون تھا کہ جو آسان کہہ گیا مجھ کو

    وہ کون تھا کہ جو آسان کہہ گیا مجھ کو ذرا سی بات پہ نادان کہہ گیا مجھ کو یہ دور وہ ہے خدا کو کہے خدا نہ کوئی کرم ہے اس کا جو انسان کہہ گیا مجھ کو وہ دکھ رہا تھا پریشان مجھ سے مل کے بہت عجیب بات ہے حیران کہہ گیا مجھ کو نہیں کھلا سکا جب پھول دل میں چاہت کا تو بے بسی میں وہ ویران کہہ ...

    مزید پڑھیے

    بناؤ جو بھی تمہیں کچھ نیا بنانا ہے

    بناؤ جو بھی تمہیں کچھ نیا بنانا ہے مجھے تو اپنا سا کچھ دوسرا بنانا ہے بدن سے سائے سبھی اپنے یکجا کرکے مجھے سفر میں دھوپ کے اک قافلہ بنانا ہے بناؤ منزلوں سے منزلوں کو تم لوگوں مجھے تو راستے سے راستہ بنانا ہے اسے بنانا تھا جو وہ بنا چکا پہلے ہماری مٹی سے اب اور کیا بنانا ہے بناؤ ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے کی نفرت کو سدا دی جائے

    کون کہتا ہے کی نفرت کو سدا دی جائے آؤ بس دل میں وفا اور بڑھا دی جائے ہم سفر لطف سفر اور دوبالا ہوگا چھاؤں میں دھوپ اگر تھوڑی ملا دی جائے اب تو وحشت مری چاہت کی یہی کہتی ہے میں گنہ گار ہوں تو مجھ کو سزا دی جائے ابر خوشیوں کے بھی برسیں گے یقیں ہے مجھ کو غم کی چادر تو مرے سر سے ہٹا دی ...

    مزید پڑھیے

    پہاڑ صحرا ندی نے ہمیں تلاش کیا

    پہاڑ صحرا ندی نے ہمیں تلاش کیا ہمارے بعد سبھی نے ہمیں تلاش کیا کہا تھا ہم نے تمہیں کب ہمیں تلاش کرو تمہاری اپنی کمی نے ہمیں تلاش کیا کسی نے نام کسی نے وجود ڈھونڈا ہے ذرا ذرا سا سبھی نے ہمیں تلاش کیا تلاشا پہلے خوشی کو جگہ جگہ ہم نے پھر اس کے بعد خوشی نے ہمیں تلاش کیا ہماری ہستی ...

    مزید پڑھیے

    غور سے دیکھ یار خطرہ ہے

    غور سے دیکھ یار خطرہ ہے عشق میں بے شمار خطرہ ہے پھر وہی آپ کا یقیں ہم پر پھر وہی اعتبار خطرہ ہے ہر چمکتے ہوئے ستارے کا جگنوؤں میں شمار خطرہ ہے اتنی شدت سے دیکھنے والے شدت اعتذار خطرہ ہے کوئی نادان کو یہ سمجھائے آپ اپنا شکار خطرہ ہے اور کوئی نظر نہ آئے ہمیں اس قدر خود سے پیار ...

    مزید پڑھیے

    خود سے جب بے زاری ہو

    خود سے جب بے زاری ہو کس سے بات تمہاری ہو چاہے مجھ سے دور رہو میری ذمہ داری ہو ایک سا موسم لگتا ہے خوشی ہو یا بے زاری ہو تم بھی بزم میں ہو موجود راگ بھی پھر درباری ہو دل کا حال چھپا لوں تو اچھی دنیا داری ہو کھل کے مجھ سے بات کرے جس کو کچھ دشواری ہو خوش مت ہو یہ ممکن ہے اگلی تیری ...

    مزید پڑھیے

    جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں

    جو شب ہوئی تو نظارے اتر کے آئے ہیں زمیں پہ دیکھو ستارہ اتر کے آئے ہیں کسی کی نیند ابھی تک ہے بیچ دریا میں کسی کے خواب کنارے اتر کے آئے ہیں ہوا کے لمس نے آواز دی ہے ماضی کو بجھے سے دل پہ شرارے اتر کے آئے ہیں یہ کس کا ذکر ہواؤں نے آج چھیڑا ہے لہوں کے آنکھ سے دھارے اتر کے آئے ...

    مزید پڑھیے

    میری کشتی کو کنارے پہ لگاتے بھی نہیں

    میری کشتی کو کنارے پہ لگاتے بھی نہیں اپنا کہتے ہے مگر رشتہ نبھاتے بھی نہیں اک زمانے سے مجھے ان سے شکایت ہے یہی یاد کرتے بھی نہیں مجھ کو بھلاتے بھی نہیں زخم پھر تم نے کیے تازہ وگرنہ ہم تو درد تا عمر تمہیں اپنا بتاتے بھی نہیں جانتے ہیں کہ تمہیں فرق نہ پڑنا کوئی اپنی پلکوں پہ سو ...

    مزید پڑھیے

    تتلیاں نیند کی پہلے تو اڑائی جائیں

    تتلیاں نیند کی پہلے تو اڑائی جائیں پھر ہمیں خوابوں کی تعبیریں بتائی جائیں حوصلوں کی لیے پتوار لڑے موجوں سے کشتیاں ایسی سمندر میں چلائی جائیں درد نے دل پہ مرے پھر سے لگائی دستک اس کی راہیں سبھی پھولوں سے سجائی جائیں لکھ گئے میر تقی میرؔ سخنور غالبؔ گیت غزلیں وہ زمانہ کو سنائی ...

    مزید پڑھیے

    اپنا کردار نبھایا ہے سمندر میں نے

    اپنا کردار نبھایا ہے سمندر میں نے ایک قطرے کو بنایا ہے سمندر میں نے اپنی لہروں سے ذرا کہہ دے کہ ہشیار رہیں دل میں طوفان چھپایا ہے سمندر میں نے جس کو مد مست ہوائیں بھی بجھا نہ پائیں دیپ اک ایسا جلایا ہے سمندر میں نے تجھ کو پرواہ نہیں وعدے کی تو اپنے نہ سہی پیار کا دل میں چھپایا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3