میری کشتی کو کنارے پہ لگاتے بھی نہیں

میری کشتی کو کنارے پہ لگاتے بھی نہیں
اپنا کہتے ہے مگر رشتہ نبھاتے بھی نہیں


اک زمانے سے مجھے ان سے شکایت ہے یہی
یاد کرتے بھی نہیں مجھ کو بھلاتے بھی نہیں


زخم پھر تم نے کیے تازہ وگرنہ ہم تو
درد تا عمر تمہیں اپنا بتاتے بھی نہیں


جانتے ہیں کہ تمہیں فرق نہ پڑنا کوئی
اپنی پلکوں پہ سو ہم اشک سجاتے بھی نہیں


کچھ نہ بدلا ہے نہ امید بدلنے کی کچھ
جانتے ہیں تبھی تو شور مچاتے بھی نہیں


اس زمانے کی یہی ایک حقیقت ہے جیوتیؔ
لوگ رسماً ہی سہی دل سے نبھاتے بھی نہیں