پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ
پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ تشنگی ڈھونڈھ رہی ہے مے و مینا و ایاغ ذہن میں پھر سے ابھرنے لگے ماضی کے نقوش دل میں ہونے لگے روشن تری یادوں کے چراغ پھر سے اک موج طرب موجۂ رنگ اٹھی ہے پھر سے ملنے کو ہے شاید غم ہستی کا سراغ