Javed Kamal Rampuri

جاوید کمال رامپوری

جاوید کمال رامپوری کے قطعہ

    پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ

    پا لیا پھر کسی امید نے فردا کا سراغ تشنگی ڈھونڈھ رہی ہے مے و مینا و ایاغ ذہن میں پھر سے ابھرنے لگے ماضی کے نقوش دل میں ہونے لگے روشن تری یادوں کے چراغ پھر سے اک موج طرب موجۂ رنگ اٹھی ہے پھر سے ملنے کو ہے شاید غم ہستی کا سراغ

    مزید پڑھیے

    دل ویراں کو اب کی بار شاید

    دل ویراں کو اب کی بار شاید غموں نے اپنا مسکن کر لیا ہے ترے وحشی نے اب تو اپنے حق میں زمانہ بھر کو دشمن کر لیا ہے غزل ظالم سے ہم بھی ہار بیٹھے اسی کو اپنا اب فن کر لیا ہے

    مزید پڑھیے

    نیند اڑ جائے گی راتوں کو شکایت ہوگی

    نیند اڑ جائے گی راتوں کو شکایت ہوگی میں نہ سمجھا تھا تمہیں اتنی محبت ہوگی نظریں ڈھونڈیں گی ہر اک راہ پہ قدموں کے نشاں بال بکھرائے ہوئے منزلوں وحشت ہوگی یہی آشفتہ مزاجی ہے تو اے جان وفا آج بستی میں ہے کل شہر میں شہرت ہوگی

    مزید پڑھیے